The Pashtoon Culture
تحریر شاہ خالد شاہ جی
نناواتی۔۔ ایک پشتو ن ثقافت۔
نناواتی پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے داخل ہونا یعنی کسی کے گھر میں اچانک داخل ہونا ۔ لیکن اس کا بلکل یہ مطلب نہیں کہ اپ کسی کے گھر میں عام حالات میں داخل ہو جائے بلکہ ایک خاص اور مخصوص حالت میں داخل ہونے کو نناواتی کہتے ہے۔ نناواتی ایک ایسا پشتون روایت ہے جو پشتونوں کے کے معاشرے میں صدیوں سے چلا ارہاہے۔ نناواتی کا اہتمام دوسرے معاشروں میں بھی ہوتا ہے لیکن پشتونوں کے معاشرے میں اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے اور اگر چہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر چہ دوسرے اقدار کمزور ہو چکے ہیں لیکن نناواتی ایک ایسا قدر ہے جو اج بھی اسی طرح قائم و دائم ہے اور اس کا اہتمام اسی طرح ہو رہا ہے جس طرح صدیوں پہلے ہوتا تھا۔ نناواتی کا اہتمام پشتون معاشرے میں اس طرح ہوتا ہے کہ اگر کوئی بندہ غلطی سرزد ہو جائے ہے اگر وہ چھوٹی وہ یا کسی کا قتل ہو ہو تو پھر اس معاملے کو حال کرنے کے لئے نناواتی کا اہتمام کیاجا تاہے ۔ نناواتی میں جو بندہ غلطی کرے تو وہ اس واقع کے کچھ دنوں بعد یعنی تین چار دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں نناواتی کا بندوبست کرتا ہے ۔ نناواتی کا طریقہ کار یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ غلطی کرے خواہ وہ قتل کیوں نہ ہو یعنی وہ اس غلطی سے کسی کا قتل ہو جائے اور یا دانستہ طور پر ہوجائے تو وہ پھر اپنے غلطی کو تسلیم کرکے اپنے ولاقے کے کچھ مغزز اور بزرگ لوگوں کو جمع کرتا ہے اس میں آٹھ سے پندرہ تک لوگو ہو تے ہیں ۔ پھر اس کو اس دوسرے فریق کے گھر بھیج دیا جا تا ہے ۔ وہ لوگ یا گرجہ جس کو جدید دور میں وفد کہتے ہے اس فریق کے گھر اچانک جاتے ہیں ۔ اچانک اس لئے کہ وہ بندہ جس کے گھر وہ جانا چاہتے ہیں وہ کوئی بہانہ نہ کرے اور گھر سے کسی دوسرے جگہ نہ جائے تو اس لئے وہ اس کے گھر اچانک جاتے ہیں تاکہ اس کو اچانک گھر پر پاسکیں ۔ جب وہ جرگہ اس کے گھر جاتا ہے تو اس بندے کے ساتھ ملتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو بھی بلائے تاکہ جرگہ جو بات کرنا چاہتا ہے کہ وہ سب کے موجودگی میں وہ تاکہ سب اس سے با خبر ہو۔ اگر گھر والا اپنے بھائیوں کو بلانا چاہتا ہے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر نہیں تو بھی یہ اس کی مرضی ہوتی ہے۔پھر جرگہ یا وفد میں جو بزرگ بندہ ہوتتا ہے وہ بات شروع کرتا ہے کہ ہم تو فلاں بندے نے اپ کے پاس بھیجے ہیں کہ اس نے جو کام کیا ہے وہ اس پر پشیمان ہے اور وہ ہر قسم ازالے کے لئے تیار ہے۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایسا وہ جائے لیکن بس ایسا ہوگیا جس کے لئے میں اپنے اپ کو مجرم سمجھتا ہو اور معافی کا طلب گار ہو۔ جرگہ والا اس کو کہتا ہے کہ ہم علاقے کے بزرگ اپ کے پاس ائے ہین اس لئے ہمارا لاج رکھ اور ہم کو خالی ہاتھ واپس مت کرو بلکہ اس بندے کو معاف کرو اور ہمیں عزت بخشو۔ اسی طرح سارہ جرگہ اس بزرگ کے بات کی تائید کرتا ہے اور گھر والے سے یعنی اس فریق سے خوشخبری کے امید کرتا ہے ۔اس پر وہ فریق یعنی بندہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے لیکن پھر بھی اپ ہم سب کے بزرگ ہے اور اپ نے اتنی عزت ہمیں بخشی ہے کہ میرے گھر ائے ہو مین اپ کا قدر کرتا ہوں لیکن مجھے کچھ سوچنے کا موقع دیں تاکہ مین کوئی اچھا فیصلہ کرسکو۔ میں خود اپ کو بتاؤنگا اپ پھر انے کے زحمت نہ کریں ۔ اس طرح اس بندے کو جرگہ متفقہ طور پر کچھ دنوں کا وقت دیتا ہے اور پھر اس کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھتا ہے۔اور کچھ دنوں بعد وہ اس کو دوبارہ جواب دیتا ہے۔پھر جرگہ ہوتا ہے اور اخری فیصلہ کرتا ہے ۔ فریق اول کو فریق دوم کے گھر لے جاتا ہے اور وہا پر ایک بڑے دعوت کا اہتمام ہوتا ہے اور اس میں پورے علاقے کے لوگوں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔یہ سب پروگرام جرگہ کے نگرانی میں ہوتی ہے اور فریق دوم کے جو شرائیط ہو تی ہے وہ بھی فریق اول بخوشی مان لتی ہے اور جرگہ والا سب لوگوں کے موجودگی میں دونوں فریقین کو گلے ملا لیتے ہیں اور وہ عہد کرتے ہے کہ وہ ائیندہ بھائیوں کے طرح رہنگے اور ایک دوسرے کو دل میں کوئی کدورت نہیں رکھیں گے۔ اور جرگہ کے فیصلہ کا احترام کرینگے۔ تو اسی طرح اس دوشمنی دوستی میں بدل جاتی ہے تو یہ سب نناواتی کے زریعے ہو جاتی ہے۔ اس سب عمل کو نناواتی کہتے ہیں ۔ ہمارے علاقے میں اب بھی یہ روایت پچلے وقتوں کی طرح بہت مظبوط ہے اور بہت بڑے بڑے مسائل اس کے زریعے حال کئے جاتے ہیں ۔ ویسے تو بہت سے مثالین ہیں لیکن میں ہیا پر ایک کا ذکر کرونگا کہ پچلے مہینے ہمارے گاؤں میں بھی ایک مئسلہ تھا جو نناواتی کے زریعے حل ہوا وقع کچھ ہو تا کہ دو بندوں کا زمین پر تنازعہ چلا راہاتھا ایک نے کہا کہ یہ ہمارا ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ یہ ہمارا ہے، زمیں ایک بندے کی ملکیت میں تھی اور وہ اس کو کاشت کررہا تھا کئی سالوں سے لیکن دوسرے نے اس پھر دعوی کیا کہ یہ میرے اباؤاجداد کی ہے ۔ ایک دن فریق اول اس میں ٹریکٹر چلا راہا تھا کہ دورے فریق نے اس پر فائرینگ کی اور فریق اول اس سے جاں بحق ہوا ۔ پھر اس میں نناواتی ہوئی اور فریق دوم نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور جس زمیں پر وہ ملکیت کا دعوی کررہاتھا وہ اس سے بھی دستبردار ہوا اور دس لاکھ روپے بھی فریق اول کو بطور معاوضہ ادا کیا جو نناواتی کے زریعے جرگہ نے اس کے ذمے رکھا تھا تو نناواتی ایک ایسا پختون روایت ہے جو دوسرے معاشروں میں بھی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں یہ بہت مظبوط ہے اور لوگ اس کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔اگر اس کو اپنایا جائے تو بہت سے مسائل حال ہو جائینگے ۔ کیونکہ نناواتی میں دونوں فریقین لچک کا مظاہر کرتی ہے۔
Urdu editing by Aima Yusuf Jamal
Translated by Sana Zafar
Nanawati is a word from Pashtun Language, which means “to enter” or “entering a person’s house in a proper way”. Nanawati is a cultural tradition present in the Pashtun culture since ages. Even though we have lost many traditions since the passing of times but this is one tradition that still survives and is considered an important part of Pashtun communities. Nanawati is used when someone commits a mistake in the society .Then to resolve the issue, this tradition is used. That mistake can be of any kind, big or small. Even when a killing is committed by mistake* nanawati tradition is used.
Let’s say someone makes a grave mistake and is keen to rectify it, he then arranges nanawati in a weeks’ time of committing his offence. Even if it’s the mistake* of killing someone, he arranges from 8 to 15 people from the society to interfere on his behalf. These men are usually revered, elders of the society. These group of men are called “Jirga” The Jirga then gets together and goes to the victims/person affected house unannounced. The reason they go un announced is so that they cannot claim to not be home, or to say we cannot meet you or make any excuse regarding not wanting to meet. They then ask the person affected to call his brothers or relatives or any other people so that whatever is discussed between them is in front of other people too. Whether they want to call other people is their choice sometimes they won’t, which is also acceptable to the Jirga. Then the Elder of the Jirga calls the meeting in order and says we are sent here by this person who is very sorry about the mistake he committed, he didn’t wanted it to happen this way but since the mistake has already been done he now wants to resolve the matter in such and so terms. He considers himself solely responsible for his actions and seeks your forgiveness. The elder then says that we are here on his behalf and we are all respected members of society and for our sake you must agree to forgive the person and let him rectify his mistake. The Jirga then agrees with the Elders words and tells them that they are very hopeful that a good decision will be mutually reached on.
Following this, the victim or the victim’s family says that they need time to think about their decision so that they can come upon an agreement which suits both parties. They also request that the next time Jirga is held is when they agree upon it. The Jirga then gives them a time frame and during that keeps a lookout for them. After a few days the affected party calls the Jirga, gives them the terms of forgiveness and asks them for a final decision on the matter. A feast is then arranged for both parties and other people from the community are all asked to join in.All this is done under the watchful eye of the Jirga. When a mutual agreement is reached upon, the Jirga asks both parties that to shake hands, promise that the terms of the agreement will be held and it also extracts a promise that both parties will respect the Jirga’s decision, will not hold grudges between them and live with peace.
This whole process converts enemies into friends and is called the practice of nanawati. In our region most important matters are still solved by using this age old practice. Even though there are countless examples .I will mention one: In our village there was a land dispute between two families. Both families claimed that the land was theirs. One family had been living and been doing farming on the land while the other party claimed that they were the owners of the land and had inherited it from their ancesters.In the heat of the matter, the man who claimed to be the owner of the land fired on the farmer who was harvesting the land on his tractor. The farmer died on spot. A Jirga was held and the killer was asked to forgo all his claim to the land and pay 10 million rupees, an amount reached upon by the Jirga, as blood money. Hence the matter was solved by nanawati.
This tradition is used in our community a lot and it still survives. A lot of matters are solved by this practice because both parties show a lot of tolerance while making decisions.
*Editor’s note: Act of murder cannot be by “mistake”.