top of page

Asher – A Pakhtun society’s Practice.

دنیا میں ہر معاشرے کے اپنے اپنے اقدار ہوتے ہیں جو اس کو دوسرے معاشرے سے ممتاز کرتی ہے ۔ اور یہی اقدار دوسرے معاشرے میں اس کی پہچان بن جاتی ہے۔ دنیا نے آج بہت ترقی کی ہے جس کے وجہ سے اگر ایک طرف دنیا ایک گاؤں بن گیا ہے تو دوسری طرف معاشرتی قدریں کمزور ہوگئی ہے ۔ اگر چہ اب یہ اقدار صرف ہمارے قبائلی معاشروں میں اس کی کچھ نہ کچھ جھلک ملتی ہے ۔ ہمارا علاقہ باجورایجنسی جو پاکستان کے قبائلی علاقے کا ایک ضلع ہے ۔ جو ایک قبائلی معاشرہ ہے اس میں بھی کچھ ثقافتی روایت باقی ہے ۔اس میں ایک روایت اشر کا بھی ہے۔ اشر کو نہ صرف ہمارے لوکل زبان میں اشر کہا جاتا ہے بلکہ اس کو انگریزی میں بھی اشر کہا جاتاہے۔۔ اشر کا معنی ہے اکٹھے کام کرنا۔یعنی بہت سے لوگوں کا مشترکہ طور پر ایک کام کو سرانجام دینا اشر کہلاتا ہے۔ہمارے علاقے میں جب کوئی بندہ اپنا کام کرتا ہے تو اس کے ساتھ گاؤں والے جمع ہو تے ہیں اور وہ کام اس بندے کے ساتھ مشترکہ طور پر کرتے ہیں ، اس کام کے عوض وہ لوگ اس بندے سے کوئی پیسے نہیں لیتے اور وہ کام کرنے پر خوش ہو تے ہیں کہ اس نے اپنے گاوں والے کے ساتھ کام کیا اور اس کا مشکل حال کردیا۔ دنیا میں ہر کام کے کرنے کے اپنے اپنے اصول ہوتے ہیں اسی طرح اشر کے بھی کچھ اصول ہے اگرچہ یہ اصول کوئی لازمی نہیں ہے کا اس کے پابندی اشر میں حصہ لینے والے لوگ کریں لیکن پھر بھی اگر کوئی اس کو اپنائے تو جس کام کے لئے وہ اشر میں جمع ہے تو وہ خوش اسلوبی سے انجام پاتا ہے ۔ پہلا اس میں یہ ہے کہ اشر کرنے والا ایک دن یا دو تین دن پہلے ان لوگوں کو اطلاع کرتا ہے کہ فلاں دن اس کا کام ہے اس کے لئے اپ اشر کے لئے اجاؤں۔ تو وہ لوگو اسی دن اور جو وقت اس کو بتایا گیا ہے اس پر اس جگہ پہنچ جاتاہے۔ اشر میں اکثر زیادہ تعداد میں لوگ حصہ لیتے ہیں تاکہ مطلوبہ کام ایک دن میں ختم کیا جائے اگر ایک دن مین نہیں تو دوسرے دن بھی لوگ اس کے لئے اتے ہیں اور اسی طرح اس کام کے ختم ہونے تک وہ اس میں حصہ لیتے ہیں اگر چہ اس میں لوگوں کا تعداد وقت کے ساتھ کم ہو جاتا ہے۔ اس کے دوسری اصول یہ ہے کہ اس بندوں کے لئے کھانے اور چائے کا بندوبست اس گھر والے کہ ذمداری ہوتی ہے لیکن اشر میں حصہ لینے والے لوگ بھی اپنے گھروں سے کھانا لاتے ہیں ۔ جس بندے کے لئے لوگ اشر کے لئے اتے ہیں ، اور وہ اشر میں کھانے والا دیسی گھی کے ساتھ ساتھ روائتی کھانوں کا اہتمام کرتاہے اور یہی اشر میں شریک لوگوں کا مطالبہ بھی ہوتاہے۔ اشر میں ہر عمر کے لوگ حصہ لیتے ہیں اور اس میں عمر کے کوئی پابندی ہیں ہوتی کیونکہ یہ ایک ایسا روایت ہے کہ اس میں ہر کوئی اپنی مرضی سے حصہ لیتے ہے۔ اشر گاؤں میں بھی ہوتا ہے اور دوسرے گاؤں میں بھی لوگو اشر کے لئے جاتے ہیں اگر کوئی اس کو انے کے دعوت دیں۔ اشر کے روایت پشتون معاشرے میں صدیوں سے رائیج ہے ۔اشر میں اکثر دو گرپ بن جاتے ہیں جو اپس میں کام تقسم کر کے ایک مقابلے کا اہتمام کرتا ہے اور جو گروپ اپنا کام پہلے ختم کرتا ہے تو اس کو داد دیا جاتا ہے اور اس کو کھانے میں خا ص تواضع بھی کیاتاہے اور لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اشر کئی موقعوں پر ہوتے ہیں جس میں مکانات بنانا،گاؤں کے لئے مشترکہ راستے بنانا،پانی کا بندوبست کرانالیکن کچھ موقعوں پر اس کا خاص بندوبست کیا جاتا ہے جس میں فصلوں کی بویائی اور اس کے کٹائی شامل ہیں ۔ چاول کے فصل کے بویائی کے دوران اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے ہمارے علاقوں میں اور لوگ اشر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ اسی طرح جب گندم کے کٹائی کا وقت ہوتا ہے تو اس دوران بھی اس کا خاص اہتمام ہوتا ہے ، ان دونوں موقعوں میں اشر مین شریک لوگ گرپوں میں تقسم ہوتے ہیں اور ہر گروپ اسی کوشش میں ہوتی ہے کہ وہ اپنا کام پہلے ختم کریں ، اسی دوران کھیت کے مالک کے طرف سے اس کے لئے موسیقی کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور وہ اس سے بھر پور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اشر میں شریک لوگ اپس میں بھی موسیقی کا مقابلہ کرتے ہیں جس کو ہم لوکل زبان میں ٹپ کہتے وہ ٹپے گاتے ہیں اور اسی طرح لوگو ں میں کام کا جذبہ بڑھ جاتاہے اور وہ مزید تیزی سے کام کرتے ہیں۔اشر ایک اسیے روایت ہے کہ اس کا پشتوں کے شاعری میں بھی گاہے بہ گاہے ذکر ملتا ہے اور شاعروں نے اس کو اپنے شاعری کا موضع بنایا ہے۔ پشتوں کے مشہور شاعر رحمت شاہ سائل نے اپنے ایک عزل میں یوں بیان کیاہے جس کے چند مصرعے یہ ہے کہ۔۔ لو لہ بہ رازے جانان لولہ بہ رازے،، پلی پٹی بہ راتہ ٹول خاستہ کوئے جانانہ لولہ بہ رازے جانان لولہ بہ رازے۔۔ دہر پٹی نہ چی ٹپی راخیجی بیداراوی لوگری،، داٹپی وار بہ راسہ وار پہ وار یگدے جانان لولہ بہ رازے جانانہ لو لہ بہ رازے ۔۔ ترجمہ۔ اپنے دوست یا جانان کو کہتے ہے کہ اپ گندم کے کٹائی کے لئے ضرور اؤنگے۔ تم ہمارے کھیتوں اپنے انے سے خبصورت بناؤ ۔ پھر کہتا ہے کہ ہر کھیت سے کٹائی کے وقت ٹپی جو پشتوموسیقی کا مشہور صنف اس کی گائیکی کی آواز یں رہی ہے جو لو یعنی کٹائی کرنے والوں کو بیدار کرتاہے تو اپ بھی ہمارے ساتھ ٹپہ کا باری رکھیں گے۔۔۔ اسی طرح بہت سے گلوکاروں نے اسکو ں اپنے خوبصورت اوازوں میں ریکارڈ کیاہے، اور اشر کے دوران اس کو سنتے ہیں اس کے ساتھ رویتی ڈول اور رقص کا بھی اہتمام بھی ہوتا ہے اور بیل اور دنبے بھی زبح کئے جاتے ہیں ۔جس سے لوگ مزہ لیتے ہیں لو کے دوران۔ اشر کے دوران کبھی کبھی شریک لوگ ناخوشگوار حادثوں کا بھی شکار ہو تے ہیں لیکن وہ اس سے کبھی ناراض نہیں ہوتا بلکہ اس بات کا افسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کام کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا ۔ گھر والے ایسے لوگوں کے بہت خاطر مدار کرتے ہیں ۔ اشر میں بہت سے ایسے وقعات اائے ہیں جو ناخوشگوار ہیں لیکن میں صرف ایک کا یہاں پر ذکر کرونگا کہ ادن ہمارے علاقے میں ایک جگہ ہے جس کا نام چارمنگ ہے وہاں پر ایک پانی کا تالاب بن رہاتھا جس میں لوگ بیلوں کے زریعے کام کر تے تھے اس میں ایک شخص کا بیل دوسرے کے بیل پر چڑھ دورا جس سے اس دوسرے شخص کا بیل بھی زخمی ہوا اور وہ بندہ خود بھی زخمی ہوا لیکن اس نے اس کا کوئی پرواہ نہیں کیا اور کل ایک نئے جذبے کے ساتھ کام کے لئے آیا۔ تو اشر میں اگر چہ کام کرنے والے کوئی معاوضہ نہیں ملتا لیکن پھر بھی ہووہپیار اور محبت سے کام کرتے ہیں ۔ اس میں لوگوں کا اپس میں پیار محبت بڑھتا ہے۔آج کل جس طرح دنیابہت سے ثقافتی اقدار ختم ہوئے ہیں اور کچھ جگہوں پر کمزور ہوئے ہیں تو پشتون معا شرے میں بھی یہ اقدار متاثر ہوئے ہیں لیکن پھر بھی یہ اقدار اب بھی موجود ہے اور لوگو اس کو زندہ رکھنے کے لئے پر جوش ہیں۔ ہمارہ معاشرہ اسی اقدار کے وجہ سے مشہور ہے کہ اس میں کمزور کے ساتھ مدد کیا جاتا ہے ۔ ہمارے علاقے میں جس جگہ پر یہ اقدار مظبوط ہے وہاں پر لوگوں کے درمیان مھبت اور بھائی چارے کا ماحول ہے ۔ اور جس جگہ پر یہ کمزور ہے وہاں پر لوگوں کے درمیان مفاد پرستی زیادہ ہوگئی ہے وہاں پر کوئی کسی کا کیال نہیں رکھتا ہر ایک اپنی اپنی فکر میں ہے اور دوسرے کا کوئی نہیں سوچتا۔ اسی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ کا سماں ہے۔ اگر اشر کا روایت کو زندہ اور مضبوط رکھا جائے تو بہت سے مسائل خود بخود حال ہو گائینگے۔ اخر میں پشتوں کا یہ ٹپہ : پہ سرو منگلو بہ میں چائے درلہ کولہ ۔۔ تا بہ لو کولہ ما بہ سترئے راٹولہ ولے یعنی میں لال ہاتھوں سے اپ کے لئے چائے بناونگی ،،اور اپ لو یعنی کٹائی کروگے اور میں گندم کے کٹے ہوئے فصل ایک جگہ اکھٹے کورنگا۔

English Translation:

Credits : Aima Y Jamal and Sana Zafar

Every society has its own values that are distinct and these values are the core which distinguishes it from other societies. Hence these values become the identity of that society. On one hand the world has become a global village and on the other hand the societal values have become weak. We can find a glimpse of these values in our tribal societies. Our region is a district of Bajor agency, which is based in Pakistan's tribal belt. It is a tribal society with some cultural traditions still intact. One of these traditions is called “Asher”. What it means is “to work together”. Many people helping out each other by performing a task jointly. In our village if a person is doing work other village members help him out in his task. None of the helping hands ask for payment but are instead happy that they helped a fellow villager and in doing so eased his difficulty. Just like every other work in this world has its own set of rules, asher also have some rules attached although they are not mandatory. Even though it’s not essential that the people who take part in this practice adhere to the rules but still if they follow it the work is performed in a better way.

First rule is the person helping out as usher informs the person he is helping, a day or two before, about the time and day he is available and then on that day that he has committed to, he arrives on time to help out. Many people take part in usher so that the task can be completed in a day, or two. Often the number of people helping out decreases as the time pass.

The second rule is that the person who needs help provides food and tea for everyone helping him. Although sometimes people even pack their own food when they come to help. Mostly people ask that traditional dishes are cooked for them.

In Asher, people from all ages take part. Since this tradition requires that you volunteer your services so anyone can offer their help and there is no age restriction. Mostly people from one village take part in this practice but if invited people from other villages can also join in.This tradition is present in the Pashtun society since centuries. Often people divide the work in two groups so there can be a competition between the them to see who can finish their task before the other group. The group who finishes early receives appreciation and their food is made with special care and pomp.

Asher is required during tasks like building a house, making a brick pavement for the village, making water wells etc . Mostly this practice is required during sowing and harvest season. Sowing rice is an important event in our village when usher takes place. Another important time is when wheat crops are ready for harvest. During both times people in our village actively take part in this practice and are divided in two groups and both groups try to outdo each other. The person whose farm is being harvested also arranges for music to be played while people are at work so that they can enjoy while at work. Often there are music competitions held. The songs people sing in these competitions are called “tapay” in our local language. People sing these songs while working. Many Pashtun poets even made this tradition of singing songs during usher a subject in their poetry.

One famous Pashtun poet called Rehmat Shah Sayel wrote in his poem “My beloved/friend it’s time for harvest and I’m hoping you would come and make this field beautiful with your presence. I can hear songs in every field but mine so come and make my field come alive too.”

Many Pashtun singers have also recorded “tapay” in their beautiful voices. Some people play these recordings during usher and enjoy listening to these songs. Sometimes traditional dances are also arranged and afterwards there is a feast of lamb or other sacrificial meat.

Once a while if a helping person gets injured while being on the job, he doesn’t complain and is instead unhappy that he couldn’t complete his task that he promised to do. There had been some unfortunate incidences during the practice of usher but I’ll just mention one here. In our area there is a place called Char mang, where the construction of a water pond was taking place. People were clearing that area with the help of oxen. One guys ox started fighting with another villager’s ox, in the ensuing fight both ox and men were injured but neither person complained and the next day both came back to help out again.

Since asher is a voluntary practice and there is no payment for the work, people still finish their jobs with hard work and perseverance. They do it out of love for their fellowmen. In today’s world so many cultural and societal traditions are lost now and the practice of usher is also suffering but in our Pashtun society people are still bent on keeping this practice alive. Where ever this practice is alive there is more love and brotherhood between people. And where this practice is dead the love between people has also wavered and there is more selfishness and self interest in that society. Everyone remains busy in their own work and nobody cares what their neighbors are doing. Which is the cause of many problems. If the practice of usher is kept alive and is strengthened then many of the societal problems can fix themselves.

As it’s said in a Pashtun Tapa; “I will make tea from these red henna tattooed hands While You harvest the wheat and stock it!”


  • LinkedIn Social Icon
  • Instagram Social Icon
  • Twitter Social Icon
  • YouTube Social  Icon
ATTENTION! 

If you are a budding writer with a firm conviction that the "pen still has the might to change the destiny of these two countries, get in touch with us now!

 

Email your CV and a brief Statement of Purpose in 300 words and you could work with us.

 

Email id: editorlighthouseproject@gmail.com

UPCOMING EVENTS: 

 

01/11/2015: Welcome our new visionaries

 

03/11/2015: Essay Contest 2015 announcement

 

03/12/2015: Essay contest closes

 

21/12/2015: Results announced

 RECENT POSTS: 
 SEARCH BY TAGS: 
No tags yet.
bottom of page